ازل سے بستی حیراں پہ ایک سایہ تھا
| ازل سے بستی حیراں پہ ایک سایہ تھا |
| جسے وجود کے پیکر میں اب تراش لیا |
| بھلا یہ آدم بے سمت اب کہاں بھٹکے |
| جہاں جہاں تھا گمان اس نے سب تراش لیا |
| میں بے وجہ کی جدائی پہ کیوں یقیں کرتا |
| ترے فراق کا میں نے سیب تراش لیا |
| مرے لبوں کو تمہاری کہاں ضرورت هے |
| مجھے سراب کی لہروں نے جب تراش لیا |
| میں رات بہت دیر تک اداس تھا |
| اٹھا جو تھک کے تو میں نے بھی رب تراش لیا |
| میں فن تراش تھا سوچا تجھے امر کر دوں |
| تجھے اٹھا کے تخیّل میں تب تراش لیا |
شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان
کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے
پیشکش : شعبۂ تحریرو پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
لکھتا ہوں کہ شاید کوئی افکار بدل دے
رات بھر اکیلا تھا اور دن نکلتے ہی