طے کرکے مسافر کو مسافت نہیں آتی
| طے کرکے مسافر کو مسافت نہیں آتی |
| شمشیر اٹھانے سے شجاعت نہیں آتی |
| تعزیر جو گفتار کے آڑے نہیں آتی |
| اس قوم کے حصّے میں یہ ذلّت نہیں آتی |
| احساس گناہ ، سوچ گناہ ، لفظ گناہ ہیں |
| کیوں آج بھی لوگوں میں بغاوت نہیں آتی |
| جس شہر میں عصمت کی جگہ بھوک چلاۓ |
| اس شہر کے حاکم کو سخاوت نہیں آتی |
| وہ خاک ہے تر آج بھی اپنوں کے لہو سے |
| جس خاک کو دشمن سے عداوت نہیں آتی |
شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان
کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے
پیشکش : شعبۂ تحریرو پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
لکھتا ہوں کہ شاید کوئی افکار بدل دے
رات بھر اکیلا تھا اور دن نکلتے ہی