شمیم کی بلّی
| ایک لڑکی تھی ننّھی منّی سی |
| موٹی سی اور تھُن مُتھنّی سی |
| نام تو اُس کا تھا شمیم افشاں |
| پر اسے لوگ کہتے تھے چھیماں |
| اُس نے پالی تھی اِک بڑی بلّی |
| جتنی وہ خود تھی اتنی ہی بلّی |
| جس طرف وہ قدم اٹھاتی تھی |
| بلّی بھی اس کے ساتھ جاتی تھی |
| یہ جو سوتی تو وہ بھی سوتی تھی |
| یہ جو روتی تو وہ بھی روتی تھی |
| ایک دِن جب وہ مدرسے آئی |
| ساتھ بلّی کو اپنے لے آئی |
| چھیماں کمرے میں آ کے بیٹھ گئی |
| بلّی بھی دم دبا کے بیٹھ گئی |
| ماسٹر جی نے آ کے کمرے میں |
| دیکھا عینک لگا کے کمرے میں |
| نظر آئی انہیں وہاں بلّی |
| کہاں وہ مدرسہ ، کہاں بلّی |
| بولے "بی خالہ آپ ائی ہیں |
| کیسے تشریف آج لائی ہیں؟" |
| پہلے تو بلّی نے سلام کیا |
| اور پھر جھک کے یوں کلام کیا |
| "میں بھی پڑھنے جناب آئی ہوں |
| ساتھ اپنے کتاب لائی ہوں" |
| بولے سب "خالہ جان کیا کہنے |
| اللہ اللہ یہ شان کیا کہنے" |
| ہو رہی تھی ابھی یہ بات وہاں |
| آ گئے واں پہ ایک چوہے میاں |
| اب نہ وہ مدرسہ رہا نہ کتاب |
| اب تو بلّی تھی اور چوہوں کے خوِاب |
| تھے وہ شاگرد یا کہ تھے چوہے |
| نظر آئے سبھی اُسے چوہے |
| اِس کے ہاتھ اُس کے سر کو کاٹ لیا |
| اور تو اور ماسٹر کو کاٹ لیا |
| مدرسہ کیا تھا اِک طویلا تھا |
| بلّی چوہوں کا ایک میلا تھا |
شاعر کا نام : صوفی غلام مصطفی تبسم
پیشکش : شعبۂ تحریر و پشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
خوانچے والا
گپ شپ
ٹوٹ بٹوٹ
کالا ریچھ
کھیرا