اپنی دلکش نگاہوں کو اب پھیر لو
| اپنی دلکش نگاہوں کو اب پھیر لو |
| اب تو میں ایک منزل کا رستہ نہیں |
| بٹ رہا ہوں یوں رشتوں کی خیرات میں |
| خود ہی اپنے لیۓ میں تو بچتا نہیں |
| مجھ کو مجبور کرنے سے کیا فائدہ |
| خود کو بانٹوں بھی تو اور بٹتا نہیں |
| پچھلے دس سال سے کرب غربت میں ہوں |
| زندگی کہہ رہی ہے کہ عجلت میں ہوں |
| فیصلہ تم کرو کس مصیبت میں ہوں |
| اور ہر فیصلہ کرکے اتنا کرو |
| اپنی دلکش نگاہوں کو اب پھیر لو |
| جان جاں زندگی جب کہ عجلت میں ہے |
| اور عشق کا سارا سامان فرصت میں ہے |
| پھر بتاؤ کہ کیا کچھ سمیٹوں گا میں |
| میں کہ نادار ساعت ھزاروں سفر |
| عمر کے ڈھیر پر آخری رہگزر |
| اور تنہائی کہ مشورت کے لیۓ |
| خود سے ملنے کئ میل چلنا پڑے |
| ایسے حالات میں ایسے حالات میں |
| روشنی کم رہے سانس مدھم رہے |
| تم میرا ساتھ دو کام کچھ بانٹ لو |
| اپنی دلکش نگاہوں کو اب پھیر لو |
شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان
کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
میں جس گمان میں رہتا ہوں ایک مدّت سے
اک پگھلتی ہوئی روشنی کے تلے