کاغذ کي ناؤ
| ہوا کے زور سے لہرا رہی ہے!! |
| جھکولے پر جھکولے کھا رہی ہے! |
| مگر اس پر بھی بہتی جا رہی ہے |
| ہماری ناؤ بہتی جا رہی ہے ! |
| اگر ہے ناؤ کاغذ کی تو کیا ہے |
| بچانے والا اس کا دوسرا ہے! |
| ہمار ی ناؤ کا حافظ خدا ہے |
| ہمار ی ناؤ بہتی جا رہی ہے! |
| بھنور میں آ گئی شوکت کی کشتی |
| وہ غوطہ کھا گئی رفعت کی کشتی ! |
| یونہی ٹکرا گئی مد حت کی کشتی |
| ہمار ی ناؤ بہتی جا رہی ہے! |
| ہمار ی ناؤ بھی کیا ہے بلا ہے |
| جہازوں کا سا اس کا حوصلہ ہے |
بہی جاتی ہے گو دریا چڑھا ہے
| وہ اک مکھی نے دیکھو لات ماری |
| وہ پلٹا کھا گئی کشتی ہماری |
| سنبھل کر پھر ہوئی سیدھی بچاری |
| ہمار ی ناؤ بہتی جا رہی ہے! |
| وہ اک تنکے نے آ کر اس کو چھیڑا |
| لگا اک بلبلے کا پھر تھپیڑا |
| کرے گا تو ہی یارب پار بیڑا |
| ہماری ناؤ بہتی جا رہی ہے |
کتاب کا نام : پھولوں کے گیت
شاعر کا نام : اختر شیرانی
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان