اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
| اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو |
| میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو |
| نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے |
| اس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کردو |
| تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو |
| اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کردو |
| اس کے سائے میں مرے خواب دھک اُٹھیں گے |
| میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو |
| دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر |
| اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو |
| جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے |
| اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے تھل کر دو |
| تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی |
| اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجل کردو |
| مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے |
| اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کردو |
| اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے |
| ایک احسان کرو اس کو مسلسل کردو |
| مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں |
| اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کردو |
شاعر کا نام : وصی شاہ
ترتیب و پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
مرزا غالب
ایک رہگزر پر
کل نالۂ قمری کی صدا تک نہیں آئی
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
مایوس نہ ہو اداس راہی