اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
| اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا |
| جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا |
| رایوں کے راج چھینے شاہونکے تاج چھینے |
| گردن کشوں کو اکثر نیچا دکھا کے چھوڑا |
| فرہاد کوہکن کی لی تو نے جان شیریں |
| اور قیس عامری کو مجنوں بنا کے چھوڑا |
| یعقوب سے بشر کو دی تو نے ناصبوری |
| یوسف سے پارسا پر بہتان لگا کے چھوڑا |
| عقل و خرد نے تجھ سے کچھ چپقلش جہاں کی |
| عقل و خرد کا تو نے خاکہ اڑا کے چھوڑا |
| افسانہ تیرا رنگین، روداد تیری دلکش |
| شعر و سخن کا تو نے جادو بنا کے چھوڑا |
| اک دسترس سے تیری حالی بچا ہوا تھا |
| اس کے بھی دل پہ آخر چرکا لگا کے چھوڑا |
شاعر کا نام : الطاف حسین حالی
ترتیب و پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں :
کل پرسش احوال جو کی یار نے میرے