| بیاں ہے یہ مسند میں قصہ تمام |
| کہ بزم پیمبرۖ سجی ایک شام |
| صحابہ تھے مجلس میں حاضر سبھی |
| نمایاں تھا سب میں رفیق نبیۖ |
| اچانک کھڑا ہو گیا ایک شخص |
| صحابہ کی جانب مڑا ایک شخص |
| مخاطب ہوا وہ ابوبکر سے |
| جھگڑنے لگا قائد عصر سے |
| پیمبرۖ کی مجلس میں وہ بد زباں |
| لگا دینے بوبکر کو گالیاں |
| یہ سن کر نبی کا رفیق سفر |
| گلستان امت کا پہلا شجر |
| سراپا محبت تھا، خاموش تھا |
| نہ غصے میں تھا اور نہ پر جوش تھا |
| ابوبکر دامن بچاتے رہے |
| نبیۖ دیکھ کر مسکراتے رہے |
| بہت دیر تک بھی وہ جب نہ ٹلا |
| تو صدیق اکبر کو طیش آ گیا |
| انہوں نے بھی تھوڑا سا غصہ کیا |
| جواب اس کی تلخی کا کچھ دے دیا |
| پیمبرۖ جو پہلے تو مسرور تھے |
| اچانک فسردہ و نالاں ہوئے |
| نبیۖ جب فسردہ و نالاں ہوئے |
| ابوبکر بے حد پریشان ہوئے |
| ابوبکر نے پھر بصد احترام |
| پیمبرۖ سے پوچھا یہ کر کے سلام: |
| "بھلا مجھ سے سرزد ہوئی کیا خطا |
| کہ نالاں ہیں مجھ سے رسول خدا؟ |
| میں خاموش تھا، آپ مسرور تھے |
| میں بولا تو رنجیدہ خاطر ہوئے!" |
| پیمبرۖ نے سن کر یہ سب ماجرا |
| ابوبکر کو پیار سے یہ کہا: |
| فرشتہ تیرے ساتھ تھا میرے دوست |
| وہ تیرے لیے تھا سراپا سلام |
| اور اس کے لیے تھا سزا کا پیام |
| مگر جب دیا تو نے اس کو جواب |
| تو رخصت ہوا سب سلام و ثواب |
| در فضل رحمان بند ہو گیا |
| شیاطیں کا جھنڈا بلند ہو گیا" |
| بیاں ہے یہ مسند میں قصہ تمام |