| سنو اک روایت میرے دوستو |
| ہے سچی حکایت میرے دوستو |
| ملا کافر اک عالم دین سے |
| عزائم لیے اپنے سنگین سے |
| کہا: مجھ کو مذہب سے انکار ہے |
| تجھے اس پہ کیوں اتنا اصرار ہے |
| سوالات کچھ تم سے پوچھوں گا میں |
| جواب آئے، پھر رب کو پوجوں گا میں |
| کہاں بس رہا ہے تمہارا خدا |
| نہ اس کی جھلک ہے نہ اس کا پتا؟ |
| شیاطین جن آگ سے گر بنے |
| جلیں گے وہ دوزخ میں کس چیز سے؟ |
| اگر فرد عاجز ہے، لاچار ہے |
| تو کیوں قتل انساں پہ مختار ہے؟ |
| سنے عالم دین نے جب سوال |
| تو پیدا ہوا اس کے دل میں ملال |
| جو رنجیدہ ہو کر پکارا اسے |
| تو مٹی کے ڈھیلے سے مارا اسے |
| جو تکلیف کا دور جاری ہوا |
| تو ملحد پہ غصہ بھی طاری ہوا |
| کہا: میں عدالت میں اب جاؤں گا |
| سزا دیکھنا تجھ کو دلواؤں گا |
| وہ قاضی کے دربار میں آ گیا |
| سنایا عدالت میں سب ماجرا |
| کہا: عدل کا میں طلب گار ہوں |
| اور اسلام سے سخت بے زار ہوں |
| یہ سچا نہیں اس کے دل میں ہے کھوٹ |
| لگائی ہے اس نے میرے سر پہ چوٹ |
| یہ الزام سن کر معلم اٹھا |
| بڑے شوق و جذبے سے اس نے کہا: |
| کہاں زخم سر پہ ہے تیرے لگا |
| اگر ہے کہیں سب کو دکھلا ذرا! |
| نظر تیری تکلیف آتی نہیں |
| اگرچہ ہے تجھ کو مکمل یقیں |
| ہواؤں کو محسوس کرتا ہے تو |
| اگرچہ نہیں دیکھتا ان کو تو |
| اگر دل کی آنکھوں کو روشن کرے |
| خدا کی خدائی کا تو دم بھرے |
| تو مٹی تھا مٹی سے گھائل ہوا |
| خود اپنے سوالوں سے قائل ہوا |
| اگر خاک سے زخم آئے تجھے |
| تو جنات کیوں نہ جلیں آگ سے |
| اگر قادر انساں ہے انسان پر |
| تو روکے ذرا نظم شمس و قمر |
| خدا کی رضا سے یہ مختار ہے |
| خدا کی یہ قدرت کا شاہکار ہے |
| دلائل جب اس نے مکمل کیے |
| تو ملحد کا سر جھک گیا شرم سے |