ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
| ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی |
| برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی |
| اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب |
| ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی |
| تیرے کرم سے اے اَلمِ حسن آفریں |
| دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی |
| جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ |
| اشکوں میں ڈھل گئ تری صورت کبھی کبھی |
| تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا |
| گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی |
| کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمھارا خیال تھا |
| یوں بھی گزر گئ شبِ فرقت کبھی کبھی |
| اے دوست ہم نے ترکِ محبّت کے باوجود |
| محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی |
شاعر کا نام : ناصر کاظمی
پیشکش : شعبۂ تحریرو پیشکش تبیان