| کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی |
| وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی |
| ہر اک سے کون محبت نباہ سکتا ہے |
| سو ہم نے دوستی یاری تو کی ، وفا نہیں کی |
| شکستگی میں بھی پندارِ دل سلامت ہے |
| کہ اس کے در پہ تو پہنچے مگر صدا نہیں کی |
| شکایت اس کی نہیں ہے کہ اس نے ظلم کیا |
| گلہ تو یہ ہے کہ ظالم نے انتہا نہیں کی |
| وہ نادہند اگر تھا تو پھر تقاضا کیا |
| کہ دل تو لے گیا قیمت مگر ادا نہیں کی |
| عجیب آگ ہے چاہت کی آگ بھی کہ فراز |
| کہیں جلا نہیں کی اور کہیں بجھا نہیں کی |