عارف رومی کی ایک مشہور غزل مع ترجمه
| بکشائے لب کہ قند فراوانم آرزوست |
| بنمائے رخ کہ باغ وگلستانم آرزوست |
اپنے لب کھولئے کہ میں قند فراواں کی آرزو رکھتا ہوں!اپنا مکھڑا دکھلائیے کہ میں باغ وگلستان دیکھنے کا خواہش مند ہوں!
| یک دست جام بادہ ویک دست زلف یار |
| رقص چنیں میانہء میدانم آرزوست |
ایک ہاتھ میں جام شراب ہو اور ایک ہاتھ میںزلف یار پھرمیں میدان کے درمیان میں رقص کناں ہو جاوں یہی میری آرزو ہے۔
| گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا،برو |
| آن گفتنت کہ بیش مرنجانم آرزوست |
و نے بڑے ناز سے کہا کہ جا مجھے زیادہ تنگ نہ کر مجھے تیری یہی بات کہ مجھے تنگ نہ کر ،سننے کی آرزو ہے۔
| ای عقل تو ز شوق پراگندہ گوئے شو |
| اے عشق نکتہ ہائے پریشانم آرزوست |
اے عقل! تو شوق سے پراگندہ گو بن جا! اور اے عشق!تجھ سے مجھے پریشان کر دینے والے نکات سننے کی آرزو ہے
| جانم ملول گشت زفرعون و ظلم او |
| آن نور جیب موسی عمرانم آرزوست |
فرعون اور اس کے ظلم سے میرا دل بہت ملال انگیز ہے،مجھے موسیٰ علیہ السلام کے ید بیضا کی تمنا ہے۔
| دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر |
| کز دیو و دد ملولم وانسانم آرزوست |
کل شیخ ہاتھ میں چراغ لئے سارے شہر میں گھومتا رہا کہ میں شطانوں اور درندوں سے دل برداشتہ ہو گیا ہوں کسی انسان کی آرزو ہے۔
| زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت |
| شیر خدا و رستم دستانم آرزوست |
ان کمزرو اور سست ہمراہیوں سے دل گرفتہ ہوں میں شیر خدا اور رستم جیسی طاقت رکھنے والون کی آرزو رکھتا ہوں!
| گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما |
| گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست |
میں نے کہا ایسا انسان نہیں ملتا ہم نے بھی بہت ڈھونڈا ہے کہنے لگا:جو نہیں ملتا مجھے اسی کی آرزو
ہے۔