گل رنگیں
| تو شناساۓ خراش عقدۂ مشکل نہیں |
| تو شناساۓ خراش عقدۂ مشکل نہیں |
| اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں |
| زیب محفل ہے،شریک شورش محفل نہیں |
| یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں |
| اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو |
| اور تیری زندگانی بے گداز آرزو |
| توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں |
| یہ نظر غیر از چشم صورت بیں نہیں |
| آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں |
| کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گل چیں نہیں |
| کام مجھ کو دیدۂ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا |
| دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا |
| دیدۂ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا |
| سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے |
| راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے |
| میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے |
| میں چمن سے دور ہوں ، تو بھی چمن سے دور ہے |
| مطمن ہے تو، پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں |
| زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں |
| یہ پریشانی مری سامان جمیعت نہ ہو |
| یہ جگر سوزی چراغ خانۂ حکمت نہ ہو |
| ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوّت نہ ہو |
| رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو |
| یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے |
| تو سن ادراک انساں کو خرام آموز ہے |
شاعر کا نام: علامہ محمد اقبال
کتاب کا نام: بانگ درا
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
اگر کج رَو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
ایک پہاڑ اور گلہری
اختر صبح