| عیداضحٰی پر قریب آئی جو قربانی کی رات |
| چلتے چلتے ایک بکرا کہہ گیا مجھ سے یہ بات |
| عید یہ پیغام لے کر آئی ہے، حج کیجیئے |
| آج اپنی خامیوں کو آپ خود جج کیجیئے |
| ذبح کیجے مجھ کو یوں شانِ مسلمانی کے ساتھ |
| ذبح ہو جائے نہ خود مقصد بھی قربانی کے ساتھ |
| مجھ کو قرباں کرکے یہ پوچھے نہ آئندہ کوئی |
| اے عزیزو! میرے حصے کی کلیجی کیا ہوئی ؟ |
| ایک صاحب گھر مری اک ران پوری لے گئے |
| کھال باقی تھی سو مصری خان پوری لے گئے |
| کتنی بیجا بات ہے میرے خریدارِ عزیز ! |
| ذبح کرکے گوشت کر لیتے ہیں ڈبوں میں فریز |
| آپ سے یہ ‘دست و پا بستہ‘ گذارش ہے مری |
| گوشت جو میرا بچے، تقسیم کر دیجیئے فری |
| لب پہ قربانی کی نیت، دل میں خوشبوئے کباب |
| میری قربانی، وسیلہ ہے اطاعت کے لئے |
| اس کی شہرت کیوں ہو صرف اپنی اشاعت کے لئے |
| ایسی قربانی سے کیا خوش ہو گا ربِ جلیل |
| رسمِ قربانی ہے باقی، اُٹھ گیا عشقِ خلیل |
| گامزن وہ شخص ہے اللہ کے احکام پر |
| آپ سے مجھ کو شکایت ہے کہ قربانی کے ساتھ |
| گوشت کیسا، پوست پر بھی صاف کر دیتے ہیں ہاتھ |
| میں تو کہتا ہوں کہ قربانی مری انمول ہو |
| آپ کہتے ہیں کہ بریانی میں بوٹی گول ہو |
| برف خانوں میں جو میرے گوشت کا اسٹال ہے |
| یہ تو قربانی نہیں ہے، میرا استحصال ہے |
| میرا سر، میری زباں، میری کلیجی، میرے پائے |
| سب غریبوں کو دیئے جائیں یہی ہے میری رائے |
| میرا گردہ اس کا حصہ ہے جو خود بے گردہ ہو |
| میرا دل اس کے لئے ہے جس کا دل افسردہ ہو |
| عید کہتی ہے بڑھاؤ حوصلے احباب کے |
| آپ ‘کھچڑا‘ کھائے جاتے ہیں شکم کو داب کے |
| فرض قربانی کا مقصد جذبہ ایثار ہے |
| آپ کہتے ہیں کہ یہ دنبہ بہت تیار ہے |
| آپ معدہ کی ڈپو میں عید کا کوٹا لئے |
| سُوئے صحرا جا رہے ہیں ہاتھ میں لوٹا لئے |
| غیر اسلامی اگر ہے جو چُھری مجھ پر گری |
| میری قربانی نہیں یہ ہلاکت ہے میری |
| مر گیا میں آپ کو کھانے کی آسانی ہوئی |
| اس کو قربانی کہا جائے؟ یہ قربانی ہوئی |