مظلوم گدها اور نعل بند بهیڑیا ( حصّہ دوّم)
مظلوم گدها اور نعل بند بهیڑیا
گدها سوچ رہا تها:  " اگر ميں چل سكتا تو ہاته پاؤں مارتا اور كوشش كر كے صورت حال سے نپٹ ليتا- خير اب بهي مايوس نہيں ہونا چاہيے اور خاموشي سے بهيڑيے كا لقمہ نہيں بننا چاہيے –  پاؤں ٹوٹا ہوا ہے تو كيا ہوا-  جب تك دماغ كام كرتا ہے،  ہر مشكل كا حل نكل آتا ہے-"  اسے ايك خيال سوجها- وه مشكل سے اٹه كهڑا ہوا مگر اسے ايك قدم اٹهانا بهي دو بهر ہو رہا تها- جونہي بهيڑيا اس كے نزديك آيا گدهے نے كہا" اے درندوں كے سردار، سلام-"
بهيڑيے كو گدهے كي چال عجيب لگي-  اس نے كہا-" سلام، تم اس جگہ كيوں سوئے هوئے تهے؟ گدها نے جواب ديا سويا نہيں تها- گر گيا تها- ميں بيمار اور لاچار ہوں اور اپني جگہ ہل نہيں سكتا – ميں يہ اس ليے كہه رہا  ہوں كہ مجه سے كوئي كام نہيں ہو سكتا ہوں-  پوري طرح تمهارے اختيار ميں ہوں ليكن مرنے سے پہلے چاہتا ہوں كہ تم سے ايك درخواست كروں-"
 
   | کتاب کا نام | بے زبانوں کی زبانی | 
  | مولف | مهدی آذریزدی | 
  | مترجم | ڈاکٹر تحسین فراقی | 
  | پیشکش | شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان |